حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بیک چینل مذاکرات رک گئےباضابطہ مذاکرات پر توجہ مرکوز
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بیک چینل مذاکرات اب تک رک چکے ہیں، اور اب دونوں فریقین نے باضابطہ مذاکراتی عمل پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے۔ ایک باخبر ذریعے کے مطابق، گزشتہ ماہ 19 تاریخ کو دونوں طرف کی ملاقات کے بعد کسی بیک چینل ملاقات کا انعقاد نہیں ہوا۔ماضی میں ہونے والی اس ملاقات میں حکومت کی طرف سے دو اہم شخصیات شریک ہوئیں، جن میں ایک وزیر اور ایک اعلیٰ عہدیدار شامل تھے، جبکہ تحریک انصاف کی نمائندگی پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے کی۔ ذریعے کے مطابق، یہ بیک چینل مذاکرات اس وقت فعال ہوئے تھے جب ایس سی او سربراہی اجلاس کا موقع آیا اور تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا۔تحریک انصاف نے ایس سی او اجلاس کے دوران ڈی چوک پر احتجاج کی کال دی تھی، لیکن بیک چینل مذاکرات کے نتیجے میں پمز اسپتال کے ڈاکٹروں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ اس پر دونوں فریقوں کے درمیان یہ اتفاق رائے قائم ہوا کہ اگر پمز کے ڈاکٹروں کو عمران خان کے معائنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو تحریک انصاف ڈی چوک پر احتجاج ختم کر دے گی۔یہ مذاکرات اس وقت مزید فعال ہوئے جب تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد مارچ کی آخری کال دی۔ ان بیک چینل رابطوں کے تحت تحریک انصاف کے رہنماؤں جیسے علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ تاہم، عمران خان نے فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور حکومت کی جانب سے سنگجانی میں احتجاج روکنے کی پیشکش کو قبول کیا۔بشریٰ بی بی کی قیادت میں تحریک انصاف نے ڈی چوک تک مارچ کیا، جس کے نتیجے میں 26 نومبر کو اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات نے بیک چینل مذاکرات کے عمل کو سنگین دھچکا پہنچایا۔ حکومت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تحریک انصاف کی دوسری صف کی قیادت بے اثر ہے، اور عمران خان پارٹی میں کسی کی بھی بات نہیں سنتے۔تحریک انصاف نے الزام عائد کیا کہ 26 نومبر کو حکومت نے اپنے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، جب کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج میں تشدد کی سازش دیکھتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کا احتجاج امن کی بجائے تشویش کا باعث بنا۔اس کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان تیسری ہفتے میں ہائی لیول بیک چینل ملاقات ہوئی۔ تاہم، اس ملاقات میں پی ٹی آئی کو واضح طور پر بتایا گیا کہ اسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کشیدگی کی سیاست جاری رکھنا چاہتی ہے یا مفاہمت کی راہ اپنانا چاہتی ہے۔