غزل میں لاتا اسے اور پھر سجاتا اسے
میں ساز سانس میں لے آتا گنگناتا اسے
کبھی تو چھین بھی لیتا تھا اس کے ہاتھوں سے
اور اب تو اپنی ضرورت نہیں بتاتا اسے
کچھ اس لئیے اسے مشکل سے نیند آتی ہے
کہ اب کوئ بھی کہانی نہیں سناتا اسے
کبھی گلاب کبھی خواب تو کبھی مہتاب
وہ ساتھ رہتا تو میں کیا سے کیا بناتا اسے
میں خود کو بھول گیا صرف اس کو یاد رکھا
جو خود میں آتا تو ممکن تھا بھول جاتا اسے
طلسم ٹوٹ گیا تھا نہیں تو میں سید
حقیقتیں بھی اسے خواب بھی دکھاتا اسے