ضلع بھکر: بااثر سیاسی خاندان ہی میدان میں!
بھکر میں نوانی، ڈھانڈلہ، خنانخیل، مستی خیل، شاہانی، چھینہ، اترا اور نیازی زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں
ضلع بھکر کی آبادی 19 لاکھ 57 ہزار 470 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹر دس لاکھ 42 ہزار 684 ہیں جن میں پانچ لاکھ 51 ہزار 246 مرد اور چار لاکھ 91 ہزار 438 خواتین ووٹر شامل ہیں۔
2018ء میں اس ضلعے میں قومی اسمبلی کے دو حلقے تھے۔ جن کے نمبر پہلے این اے 97 اور این اے 98 تھے۔ اب نئی حلقہ بندی میں یہ این اے 91 (بھکر ون) اور این اے 92 (بھکر ٹو) ہو گئے ہیں۔ تاہم ان کے علاقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
پچھلے الیکشن میں یہاں صوبائی نشستیں چار تھیں جن میں پی پی 89 بھکر ون (کلورکوٹ)، پی پی 90 بھکر ٹو (دریا خان)، پی پی 91 بھکر تھری (منکیرہ) اور پی پی 92 بھکر فور( بھکر شہری) شامل ہیں۔ آئندہ انتحابات کے لیے ضلعے میں پانچویں یعنی پی پی 93 بھکر فائیو (بھکر دیہی) کا اضافہ ہو گیا ہے۔
ضلع بھکر میں بااثر خاندان اور مقامی دھڑے دہائیوں سے سیاست پر حاوی ہیں۔ ان میں نوانی، ڈھانڈلہ، خنانخیل، مستی خیل، شاہانی، چھینہ، اترا اور نیازی زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔
بھکر نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 97 بھکر 1 اب این اے 91 بھکر 1 ہے
ضلع بھکر کا یہ حلقہ تحصیل کلور کوٹ اور تحصیل دریا خان پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں معمولی تبدیلی یہ آئی ہے کہ منکیرہ تحصیل کے قصبے گوہر والا قانون گو حلقہ کو نکال دیا گیا ہے جبکہ بھکر تحصیل کے خانسر قانون گو حلقہ اور کوٹلہ جام ڈگر ٹاؤن کمیٹی کو شامل کیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 98 بھکر 2 اب این اے 92 بھکر 2 ہے
یہ حلقہ تحصیل منکیرہ کی مکمل آبادی اور تحصیل بھکر کی بیشتر آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں منکیرہ تحصیل کے قصبے گوہر والا قانون گو حلقے کو شامل کیا گیا ہے جبکہ تحصیل بھکر کے مکمل قصبہ خانسر قانون گو اور ٹاؤن کمیٹی کوٹلہ جام ڈگر کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 89 بھکر 1 اب پی پی 89 بھکر 1 ہے
یہ حلقہ کلورکوٹ تحصیل کی آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کلور کوٹ تحصیل کے تین پٹوار سرکل، دریاخان تحصیل کا دولےوالا اور منکیرہ تحصیل کا گوہر والا قانون گو حلقہ نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 90 بھکر 2 اب پی پی 90 بھکر 2 ہے
یہ دریا خان تحصیل کا حلقہ ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں دریا خان تحصیل کے دو اور کلور کوٹ تحصیل کے تین پٹوارسرکل شامل کیے گئے ہیں جبکہ بھکر تحصیل کے چک 26 ٹی ڈٰی اے قانون گو اورخانسر قانون گو حلقے کے پانچ پٹوار سرکل نکال دیے گئے ہیں۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 91 بھکر 3 اب پی پی 91 بھکر 3 ہے
یہ حلقہ منکیرہ تحصیل کی آبادی پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ گوہر والا قانون گو حلقہ پہلے اس میں شامل نہیں تھا لیکن اب اس کو شامل کر لیا گیا ہے، اس کے علاوہ خانسر قانون گو حلقے کا ایک پٹوار سرکل بھی اس حلقے میں شامل ہوا ہے۔ بھکر ڈگر، چھینا ڈگر قانون گو حلقے اس سے نکال دیے گئے ہیں، اسی طرح خانسر اور خان پور کے بیشتر پٹوار سرکلز بھی اب اس کا حصہ نہیں ہیں۔
2018 کا صوبائی حلقہ پی پی 92 بھکر 4 اب پی پی 92 بھکر 4 ہے
یہ بھکر کا شہری حلقہ ہے۔ جس میں بھکر تحصیل کے دیہی علاقے بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں بھی کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں، خانسر، خانپور، دریا خان قانون گو حلقے، ٹاؤن کمیٹی کوٹلہ جام ڈگر اور چک نمبر 202 ٹی ڈی اے پٹوار سرکل کو اس حلقے میں شامل کیا گیا ہے جبکہ چھینہ نشیب، بہل نشیب، بھکر ڈگر ون قانون گو حلقے اور بہل ڈگری پٹوار سرکل نکال دیے گئے ہیں۔
پی پی 93 بھکر 5
نئی حلقہ بندیوں کے تحت بھکر ضلع میں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پی پی 93 بھکر پانچ کے نام سے بنائے گئے اس حلقے میں تحصیل بھکر کے چھینہ نشیب، بہل نشیب، بھکر ڈگر ون، بھکر ڈگر ٹو قانون گو حلقے شامل ہیں، اسی طرح دو پٹوار سرکل چھوڑ کر پورا خانپور قانون گو کو بھی اس نئے حلقے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
یہ خاندان سیاسی پارٹیوں میں بھی گروپ کی صورت میں شامل ہوتے ہیں اور پھر گروپ کی شکل میں ہی پارٹی چھوڑتے ہیں۔
قصبہ جنڈانوالہ کے رہائشی سلیم خان بلوچ سیاسی ورکر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ضلع بھکر میں سیاسی جماعتوں کا ووٹ بہت کم رہا ہے۔ جس کی مثال 2002ء کے انتخابات ہیں جب یہاں ق لیگ نے دونوں قومی اور چاروں صوبائی نشستوں پر کلین سویپ کر لیا تھا۔
"یہ نئی نویلی سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ نوانی گروپ کا کمال تھا جو تازہ تازہ ق لیگ میں شامل ہوا تھا۔ پھر جب اس گروپ نے چوہدری شجاعت حسین کو بھکر سے الیکشن لڑایا تو وہ بھی انتخابی مہم میں حصہ لیے بغیر جیت گئے۔ ”
وہ کہتے ہیں کہ 2008ء میں نوانی گروپ نے آزاد حثیت میں چناؤ لڑا اور ضلعے کی ساری سیٹیں جیت کر ن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ پھر سعید اکبر نوانی نے اپنی نشست خالی کی اور یہاں میاں شہباز شریف کو ایم پی اے منتخب کرا لیا تھا۔
یہی صورت حال بھکر کے دوسرے بڑے سیاسی دھڑے دھانڈلہ گروپ کی ہے۔
محلہ ملکانوالہ کے رہائشی عبدالحمید ڈکھنہ 40 سال سے ووٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے بھکر میں مشہور تھا کہ ڈھانڈلہ اور خنانخیل خاندان نظریاتی مسلم لیگی ہیں مگر دونوں پچھلے دو انتخابات میں قلا بازی مار چکے ہیں۔
” ظفر اللہ خان ڈھانڈلہ 2012 میں ن لیگ کے سینیٹر اور پھر ان کے کزن ڈاکٹر افضل ایم این اے (موجودہ این اے 92 سے) بنے۔ لیکن وہ 2018ء میں گروپ سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد آئی تو واپس ن لیگ میں آ گئے۔”
” ثناء اللہ مستی خیل کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ وہ 2002ء میں ق لیگ کے رکن اسمبلی (موجودہ این اے 91 سے) بنے۔ 2008ء میں ن لیگ میں چلے گئے اور پچھلا الیکشن پی ٹی آئی سے لڑا۔ یہاں ووٹر بھی’بندہ’ دیکھتے ہیں کہ کون ان کے لڑائی جھگڑے اور تھانہ کچہری کے مسائل حل کرا تا ہے ۔”
بھکر میں نوانی خاندان نے ‘نوانی عوامی محاذ’ اور ڈھانڈلہ خاندان نے’عوامی خدمت محاذ’ کے نام سے اتحاد قائم کیے ہوئے ہیں۔
نوانی گروپ نے پچھلا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا جس میں نوانی، مستی خیل، اترا اور حسن خیلی خاندان شامل تھے۔ جبکہ ڈھاندلہ گروپ میں ڈھانڈلہ، شاہانی، خنانخیل اور چھینہ خاندان اتحادی تھے۔
این اے 91 بھکر ون کلورکوٹ، دریا خان اور خانسر، چک 26 ٹی ڈی اے پر مشتمل ہے۔اس کے نیچے صوبائی حلقہ پی پی 89 (کلورکوٹ) اور پی پی 90 بھکر ٹو (دریا خان) آتے ہیں۔
پچھلی بار اس قومی حلقے سے نوانی گروپ کے ثناء اللہ مستی خیل جیتے تھے۔ پی پی 89 سے امیر محمد حسن خیلی اور پی پی 90 سے سعید اکبر خان نوانی کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ ن لیگ کا خنانخیل گروپ ہار گیا تھا۔ بعد ازاں نوانی گروپ کے تینوں ارکان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔
این اے 92 بھکر ٹو تحصیل منکیرہ اور تحصیل بھکر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس کے نیچے دو صوبائی حلقے پی پی 91 اور پی پی 92 آتے تھے۔ یہاں پچھلے دو انتخابات ڈھانڈلہ گروپ اور عامر شاہانی اتحادی تھے۔
2018ء میں اس قومی حلقے سے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر رشید اکبر نوانی کو ہرایا۔ جبکہ پی پی 92 پر عامر شاہانی نے ملک ظہیر اترا اور پی پی 91 پر غضنفر چھینہ نے سعید اکبر نوانی کو مات دی تھی۔
اب کی بار شاہانی خاندان تقسیم ہو چکا ہے۔ عامر شہانی نے سابقہ مخالف نوانی گروپ سے اتحاد کر لیا ہے جبکہ نعیم اللہ شاہانی ڈھانڈلہ گروپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئندہ الیکشن کے لیے ایک تیسرا اتحاد بھی وجود آگیا ہے جس میں مستی خیل، حسن خیلی اور نیازی خاندان شامل ہیں۔
صحافی ادریس عمران کہتے ہیں کہ ڈھانڈلہ گروپ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ یہ ن لیگ کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور پی ٹی آئی کے ووٹر کو بھی نہیں کھونا چاہتا۔ اسی لیے اس گروپ نے آزاد چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ن لیگ کی قیادت نے ڈھانڈلہ کی خواہش کے مطابق این اے 92 بھکر ٹو پر افضل ڈھانڈلہ، پی پی 91 پر غضنفر عباس چھینہ ، پی پی 92 نعیم اللہ شہانی اور پی پی 93 پر ضیاء اللہ خان ڈھانڈلہ کے مقابلے میں امیدوار نامزد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جبکہ این اے 91 اور پی پی 89 میں ن لیگ نے عبدالمجیدخان اور پی پی 90 میں ملک نذرعباس کہاوڑ کو امیدوار نامزد کر دیا ہے۔
یوں نوانی گروپ اب این اے 91 میں مستی خیل گروپ اور ن لیگ کے خنانخیل گروپ کا مقابلہ کر رہا ہے۔ جبکہ این اے 92 میں ڈھانڈلہ گروپ کے مد مقابل ہے۔
محمد سلیم بلوچ کا خیال ہے کہ اب کلورکوٹ اور دریا خان پر مشتمل قومی اور دونوں صوبائی حلقوں میں ووٹر کا مزاج تبدیل ہوا ہے۔ میانوالی سے قربت اور رشتہ داریوں کے باعث یہاں لوگوں میں عمران خان سے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ جس کا چناؤ پر بھی اثر ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ تحصیل بھکر اور منکیرہ کے حلقوں این اے 92 ، پی پی 91،پی پی 92 اور پی پی 93 میں صورت حال مختلف ہے۔ جہاں نوانی، شاہانی، چھینہ اور ڈھانڈلہ گروپ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں
این اے 91 بھکر ون سے 22 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جن میں ثناءاللہ مستی خیل اور ان کی اہلیہ سندس خان، شہاب علی کھوکھر اور عمران خان کے کزن رفیق احمد نیازی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔اس نشست پر رہنما آئی پی پی سعید اکبر نوانی( تاحال آزاد)، ن لیگ کے عبدالمجید خنانخیل، تیمور خان، جماعت اسلامی کے رستم علی ساقی ، امیر محمد خان، پیپلز پارٹی کے اعجاز شاہانی اور ثناءاللہ مستی خیل کی بھانجی بیرسٹر سوّدہ کشمیر خان و دیگر بھی امیدوار ہیں۔
تاہم اس قومی حلقے میں سعید اکبر نوانی، عبدالمجید خنانخیل اور ثنا اللہ مستی خیل یا مستی خیل گروپ کے نامزد امیدوار میں سخت مقابلے کا امکان ہے۔ یہاں سےعبدالمجید خنانخیل اور ثناء اللہ مستی خیل نوانی گروپ کی حمایت سے دو دو مرتبہ چناؤ جیت چکے ہیں۔
تجزیہ کار طارق حمید ملک کہتے ہیں کہ ثناء اللہ مستی خیل نو مئی کیس میں چھ جنوری تک حفاظتی ضمانت پر ہیں جو برقرا ر نہ رہی تو ان کا الیکشن لڑنا مشکل ہو گا ۔اس لیے ممکن ہے ثناء اللہ کی اہلیہ سندس خان کو میدان میں اتارا جائے۔
این اے 92 بھکر ٹو سے رشید اکبر نوانی، ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ، ملک ظہیر احمد اترا، حبیب اللہ نوانی، پیپلز پارٹی کے اعجاز شاہانی، پی ٹی آئی کے سید علی بخاری، رفیق احمد نیازی اور فرحان نثار، ٹی ایل پی کے محمد امجد و دیگر نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
تاہم اس نشست پر رشید اکبر نوانی اور محمد افضل ڈھانڈلہ کے درمیان گھمسان کا رن پڑے گا۔
یہاں صوبائی حلقوں میں امیدوار بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ اکثر حلقوں میں پی ٹی آئی نے زیادہ لوگوں کے کاغذات جمع کرائے ہیں تاکہ ایک نامزدگی مسترد ہونے پر دوسرا مناسب امیدوار لایا جا سکے۔
پی پی 89 بھکر ون کلورکوٹ سے سابق ایم پی اے امیر محمد خان، عبدالجبار عباسی(نوانی گروپ)، حکیم محمد مستی خیل، عبدالمجید خنانخیل(ن لیگ)، افتخار حسین شاہ(جماعت اسلامی)، فرحان خان مستی خیل، عزیز احمد و دیگرنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
تاہم اس نشست پر امیر محمد حسن خیلی، عبدالمجید خنانخیل اور عبدالجبار عباسی کے درمیان کڑا مقابلہ متوقع ہے
حلقہ پی پی 90 بھکر ٹو دریا خان سے احمد نواز نوانی، ن لیگ کے نذر عباس کہاوڑ، جماعت اسلامی کے نوید احسن ، پی ٹی آئی کے عرفان اللہ نیازی(چار فارم)، فرحان نثار، شہاب علی، ٹی ایل پی کے خالد عمر و دیگر نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
اس حلقے میں احمد نواز نوانی، عرفان اللہ نیازی اور ملک نذر کہاوڑ کے درمیان دلچسپ الیکشن دیکھنے کو ملے گا۔
اس حلقہ کے بڑے زمیندار بلوچ، قریشی، جھمٹ، واگہوارہ، ملک، سید، اولکھ اور کھوکھر نوانی گروپ کا حصہ ہیں۔ جبکہ امیر محمد خان یہاں خاصے مقبول ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی ووٹر عرفان اللہ نیازی کے ساتھ ہو گا مگر وہ ابھی روپوش ہیں۔
پی پی 91 بھکر تھری منکیرہ سے سعید اکبر نوانی، ملک غضنفر عباس چھینہ، ملک انصر چھینہ، حبیب اللہ نوانی، پی ٹی آئی سے اختر قاسم سمیت کئی امیدواروں نے نامزدگی فارم داخل کرائے ہیں۔
تاہم یہاں اصل مقابلہ غضنفر عباس چھینہ اور سعید اکبر نوانی کے درمیان متوقع ہے۔ چھینہ پہلے بھی دو مرتبہ منتخب ہوچکے ہیں۔
پی پی 92 بھکر فور (بھکر شہری) سے عامر عنایت شہانی، نعیم اللہ شہانی، ملک ظہیر احمد اترا، پی ٹی آئی کی رضوانہ نثار، فرحان نثار، رفیق احمد نیازی، پی پی پی کے اعجاز شاہانی سمیت 23 امیدوار ہیں۔
یہاں سے نعیم اللہ شاہانی تین بار اور عامر عنایت شاہانی دو مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اترا خاندان سے ملک نذیر اور ان کے بیٹے عادل نذیر بھی ایک ایک بار منتخب ہوچکے ہیں۔
اس صوبائی نشست پر نوانی گروپ کے عامر عنایت شاہانی اور ان کے کزن نعیم اللہ شاہانی (ڈھانڈلہ گروپ کے حمایت یافتہ)کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ یہاں ملک ظہیر اترا اور حبیب اللہ نوانی نوانی گروپ کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
پی پی 93 بھکر فائیو (بھکر دیہی) سے حمیدہ بانو، عامر شہانی، ضیاءاللہ ڈھانڈلہ، حبیب اللہ نوانی، چوہدری محمد نصراللہ، منتظر مہدی، ٹی ایل پی کے بہرام خان ، پی ٹی آئی کے فرحان نثار، آصف عنایت شاہانی اور محمد افضل ڈھانڈلہ سمیت متعدد امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ اصلہ دوڑ عامر عنایت شاہانی اور ضیاء اللہ ڈھانڈلہ کے درمیان ہو گی۔ مگر یہاں سابقہ اتحادیوں حبیب اللہ نوانی اور چوہدری نصراللہ کے الیکشن لڑنے کا نقصان نوانی گروپ کو ہو گا۔
بشکریہ لوک سجاک