رواں سال میں
62 برس کا ھو جاوں گا
متحیر ھوں اتنا جی لیا
ان گزرے برسوں میں
کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا
جانوروں کی سی بے مقصد
عمر تمام ھو نے کو ھے
نہ کوئی منزل، نہ اعزاز
اب تو عناصر میں اعتدال بھی نہیں ،من پیاسا روح بے چین
اپنے معاصرین میں فضول سا
اور فیملی میں عضومعطل
سوچتا ہوں زندگی میں کوئی
ڈھنگ کا کام ھی کر لیتا
تو شاید بات بن جاتی
نہ خدا کو راضی کیا
نہ لوگوں میں اچھا
نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا
زندگی کے اس موڑ پر
اس شعر کے مصداق
یہ زندگی ھے میری
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ھیں دوستو
اب ھو چلا یقین کہ برے ھم ھیں دوستو