سزا
سزا صرف جرم میں نہیں ملتی
ناکردہ گناہوں میں بھی پکڑ ھوتی ھے ۔
کیا یہ فطرت کے اصول ھیں
یا تاریخی جبر ،نہیں معلوم
پر اتنا معلوم ھے
میرے ماحول میں سزائیں فقط
کمزروں کو ملتی ھیں
اور جزائیں تو ان کو ملتی ہیں
جنہوں نے سزاوں کے آئین لکھے
تعزیروں کے لفظ لکھے
یہ تاریخ لکھنے والے حاکم ٹھہرے
اور تیرے میرے حصے میں
فقط تہمتیں آئیں
ندامتیں آئیں
تہمتیں سہنے والے تاریخ بناتے رہے
تہمتیں دینے والے تاریخ بگاڑتے رہے
اور ھم سزائیں پاتے رہے
وہ جزاوں کے حق دار ٹھہرے
سزاوں اور جزاوں کے سلسلے
عجیب سی گھمنگھیریوں میں چلتے رہے،
وقت کا یہ انوکھا چکر
کنویں کی مانند چل رہا ھے
وقت آگے کو چل رہا ھے
پر تیرے میرے مقدر میں فطرت نے
صرف سزائیں لکھی ھیں
شاید یہ سزائیں ھماری نسلوں کی پہچان رہیں تا ابد