مشرق کی قدیم داستانوں میں
پراسرار سے شہر بسا کرتے تھے
ان شہروں میں کچھ شہزادے
کچھ شہزادیاں رہتی تھیں
وہاں ایک نمانڑے سا شخص بھی
رہتا تھا
شہزادیاں ،شہزادوں میں گم رہتیں
نمانڑا شہر کے اک کونے میں گم پڑا رہتا
اس کے دوست ،پرندے درخت اور خاموشیاں تھیں
ایک دن اندھے دیو نے ایسے ہی ایک شہر پہ دھاوا بول دیا
سب شہزادے ادھر ادھر بھاگ گئے
اور سب سے پیاری شہزادی دیو کا
مال غنیمت ٹھہری
شہر سے نکلتے نکلتے دیو نے شہزادی
سے پوچھا، ترے شہر کے مرد تو فقط
شہزادے نکلے،تری نجات کو کوئی نہ آیا ،کیسا ترا شہر ھے شہزادی
شہزادی بولی ایسی بھی کوئی بات نہیں
جہاں نازک مزاج لوگ بستے ہیں
وہاں سورمے بھی ھوتے ھیں
جو اپنی تشہیر نہیں کرتے
کچھ بھی تو طلب نہیں کرتے
جب ان کی شہزادیاں پکارتی ھیں
تو خاموش سورمے بھاگ کے آتے ہیں
جان ہتھیلی پہ رکھ کے آتے ہیں
دیکھ لینا تم
میں بھی رہائی پاوں گی
تجھ جیسے دیو اور میرے سورمے میں بس یہی اک فرق ھے
تو نازک اجسام کو زیر کرتا ھے
وہ نزاکتوں میں پلے نازک مزاجوں کو
بچا لے جاتا ھے
سن لو شہزادیاں بے سہارا نہیں ھوتیں
ظلم بے سہارا ھوتا ھے
بہت جلد مٹ جاتا ھے
کہتے ھیں نازک مزاج شہزادی
اپنے دو ٹوک عزم سے
آزاد ھوئی، کیونکہ نمانڑہ
دھول اڑاتا ا پہنچا تھا
اس کے بعد آج تلک ظالم دیو
نظر نہ آیا
نمانڑوں کی بادشاہی میں
دیو نہیں آیا کرتے
شہزادیاں سکھ سے رہتیں ھیں
یاد رکھو میری شہزادی
نمانڑے بزدل نہیں ھوتے
اوکھے ویلے کے دوست ھوتے ھیں