یہ جو زہر ہے ترے قرب کا مرے روم روم اتار دے
مری داستان ہو معتبر مجھے اپنے عشق میں مار دے
کبھی اپنے جسم کو مے بنا مجھے قطرہ قطرہ پلائے جا
مری آنکھ روز جزا کھلے کوئی اس طرح کا خمار دے
تری نسبتوں سے جڑا رہوں ترے راستوں میں پڑا رہوں
کوئی ایسی حسرت بے بہا مری دھڑکنوں سے گزار دے
مرے دوستا مرے کبریا مری لغزشوں سے ہو درگزر
مری پستیوں کو عروج دے مرے اجڑے دل کو سنوار دے
مری آرزؤں کے سیپ کا کسی آب نیساں سے میل کر
مجھے آشنائے وصال کر مری بیکلی کو قرار دے
یہی اپنے شوق سے کہہ دیا کبھی ایک پل نہیں سوچنا
جہاں نقش پا ملے یار کا یہ متاع جاں وہیں وار دے