کس محبت سے یہ ہجرت کے نشاں دیکھتی ہے
رونق دنیا مری آنکھ جہاں دیکھتی ہے
نیند دیوار پہ بیٹھی ہے پرندے کی طرح
مستقل بسنے سے پہلے وہ مکاں دیکھتی ہے
کوئی چنگاری ترے آنے سے شاید بھڑکے
راکھ ہوتی ہوئی امید دھواں دیکھتی ہے
دل کا یہ شہر بھی لاہور ہوا جاتا ہے
اس جہانگیر کو اک نور جہاں دیکھتی ہے
آنکھ تو آنکھ ہے پھر خواب سجا لیتی ہے
یہ مری ڈھلتی ہوئی عمر کہاں دیکھتی ہے
حضرت جوشؔ کے دیوان کا جب ذکر چلے
کتنی حسرت سے ہمیں اردو زباں دیکھتی ہے
اب کسی موڑ پہ رکنے کا تصور بھی محال
میری وحشت تری مجبوری کہاں دیکھتی ہے