لپٹ کے سوچ سے نیندیں حرام کرتی ہے
تمام شب تری حسرت کلام کرتی ہے
ہمی وہ علم کے روشن چراغ ہیں جن کو
ہوا بجھاتی نہیں ہے سلام کرتی ہے
کسی بھی طور سکھاتی نہیں ہے آزادی
مرے حضور محبت غلام کرتی ہے
یہ سر بہ سجدہ کہا نیک دل طوائف نے
خدایا شکر کہ بیٹی بھی کام کرتی ہے
فنا کی جھیل میں جس طرح وقت رہتا ہے
کچھ اس طرح سے وہ مجھ میں قیام کرتی ہے
چراغ مفلس و بے بس کا حال ہو جیسے
ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی شام کرتی ہے
ہوا و حرص کی لعنت کا کیا کریں خالدؔ
تری طلب کو سلیقے سے رام کرتی ہے