کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے
مجھے خبر نہ ہوئی اور زمانہ جاتے ہوئے
نظر بچا کے ترا نام لے گیا مجھ سے
اسے زیادہ ضرورت تھی گھر بسانے کی
وہ آ کے میرے در و بام لے گیا مجھ سے
بھلا کہاں کوئی جز اس کے ملنے والا تھا
بس ایک جرأت ناکام لے گیا مجھ سے
بس ایک لمحے کے سچ جھوٹ کے عوض فرحتؔ
تمام عمر کا الزام لے گیا مجھ سے