موت کا وقت گزر جائے گا
یہ بھی سیلاب اتر جائے گا
آ گیا ہے جو کسی سکھ کا خیال
مجھ کو چھوئے گا تو مر جائے گا
کیا خبر تھی مرا خاموش مکاں
اپنی آواز سے ڈر جائے گا
آ گیا ہے جو دکھوں کا موسم
کچھ نہ کچھ تو کہیں دھر جائے گا
جھوٹ بولے گا تو کیا ہے اس میں
کوئی وعدا بھی تو کر جائے گا
اس کے بارے میں بہت سوچتا ہوں
مجھ سے بچھڑا تو کدھر جائے گا
چل نکلنے سے بہت ڈرتا ہوں
کون پھر لوٹ کے گھر جائے گا