لے کر ہجر کی پہلی تلخی چلتا ہے
دیکھتے ہیں کہ کب تک فروری چلتا ہے
میں کہتا ہوں تف ہے ایسے جینے پر
سانس کا پہیہ تیرے بن بھی چلتا ہے
اچھا تیرا رستہ دیکھنا ہے میں نے
اچھا بندہ لے کر نوکری چلتا ہے
اس کے قرب میں رہ کر جانا جھوٹ ہے یہ
کھوٹا سکہ اک دن لازمی چلتا ہے
تیرے آنے پر تو بارش آتی ہے
سارا شہر ہی لے کر چھتری چلتا ہے
جینے کو بھی جینا کہنا ٹھیک نہیں
سانس کا چلنا بھی تو فرضی چلتا ہے
چار دنوں میں تھک کر واپس جاتا ہے
چار دنوں میں کتنا آدمی چلتا ہے
پیدا ہونے والا موت کے دفتر سے
لے کر اپنی قبر کی تختی چلتا ہے
وقت کی زین پہ بیٹھنا عبدلؔ نا ممکن
ہم کاہل ہیں اور یہ جلدی چلتا ہے