رانا عبدالرب (غزل)

ہاتھوں سے گر گئی مرے مٹی کی خیر ہو

رانا عبدالرب

ہاتھوں سے گر گئی مرے مٹی کی خیر ہو
گھر میں ہی بیٹھی رہ گئی بیٹی کی خیر ہو

ہاتھوں کے اوک میں مرے جلتا رہا چراغ
آدھی ہتھیلی جل گئی آدھی کی خیر ہو

بستی میں بانسری کی صدا جب سنائی دے
بنجارے تو جیے تری ونجلی کی خیر ہو

میں نے تو ایک شعر کہا حسن یار پر
محفل میں جھومتی ہوئی لڑکی کی خیر ہو

دل کے ہر ایک ساز پہ رقصاں ہیں دھڑکنیں
تیری بھی خیر ہو تری مستی کی خیر ہو

نکلی ہے دشت کو وہ پنہ کی ہی آس میں
وحشت بھرے جہان میں سسکی کی خیر ہو

اک وصل ایک ہجر ہے دلہن کی مانگ میں
شہنائیوں میں دب چکی سسکی کی خیر ہو

اس واسطے نہ مانگی کبھی اپنی خیر دوست
میں چاہتا یہی تھا کہ بس تیری خیر ہو

پالا ہے اس نے ماں کی طرح اپنی گود میں
تیری بھی خیر ہو مری مٹی کی خیر ہو

دم دم ہماری آنکھ سے ٹپکے شراب عشق
آنکھوں نے دی دعا مرے ساقی کی خیر ہو

عبدلؔ نصیب ہو اسے پھولوں کا اک جہاں
ہاتھوں سے اڑنے والی بھی تتلی کی خیر ہو

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com