زیست کیا مستعار لوں گا میں
دل میں خنجر اتار لوں گا میں
مجھ سے ملنے میں عار ہو تو حضور
کوئی بہروپ دھار لوں گا میں
آبِ زر سے لکھوں گا تیری بات
لوحِ دل پر اتار لوں گا میں
ہاں مری جاں بس ایک شب ہی تو ہے
ہاں مری جاں، گزار لوں گا میں
دیکھنا! اشک بار آنکھوں سے
سرخ پھولوں کا ہار لوں گا میں
پیاس بھر لوں گا آج ساغر میں
تشنگی سے خمار لوں گا میں
وہ ستارہ جبیں ملا تو قمر
اس کے ماتھے کا پیار لوں گا میں