اب ہمیں ضد بھی نہیں ہے کہ محبت مل جائے
کوئی ایسا تو ملے جس سے طبیعت مل جائے-
ایسا فرقت کا زمانہ ہے، کہ قرآن میں بھی
رونے لگتا ہوں، اگر صبر کی آیت مل جائے-
سیدی! کوئی نظارہ کہ نظر آنے لگے
مرشدی! کوئی اشارہ کہ حقیقت مل جائے-
دکھ بھی ایسا ہے کہ افلاک گریزاں ہو جائیں
ہاں اگر عشق میں ڈوبی ہوئی عورت مل جائے-
ڈھونڈتا رہتا ہوں صورت کوئی اس کی صورت
کوئی صورت ہو کہ آنکھوں کو طراوت مل جائے-
بعض اوقات تو کچھ ایسے سخن ہوتے ہیں
خوف آتا ہے کہ شاعر کو رسالت مل جائے-