کامران قمر (غزل)

اب ہمیں ضد بھی نہیں ہے کہ محبت مل جائے

کامران قمر

اب ہمیں ضد بھی نہیں ہے کہ محبت مل جائے
کوئی ایسا تو ملے جس سے طبیعت مل جائے-

ایسا فرقت کا زمانہ ہے، کہ قرآن میں بھی
رونے لگتا ہوں، اگر صبر کی آیت مل جائے-

سیدی! کوئی نظارہ کہ نظر آنے لگے
مرشدی! کوئی اشارہ کہ حقیقت مل جائے-

دکھ بھی ایسا ہے کہ افلاک گریزاں ہو جائیں
ہاں اگر عشق میں ڈوبی ہوئی عورت مل جائے-

ڈھونڈتا رہتا ہوں صورت کوئی اس کی صورت
کوئی صورت ہو کہ آنکھوں کو طراوت مل جائے-

بعض اوقات تو کچھ ایسے سخن ہوتے ہیں
خوف آتا ہے کہ شاعر کو رسالت مل جائے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com