چاند نکلا ہے مگر شام سے خوف آتا ہے
مجھ کو اس شہر کے انجام سے خوف آتا ہے
کانپ جاتا ہوں اگر شاخ سے پتا بھی گرے
ایسی چپ ہے کہ دروبام سے خوف آتا ہے
خوف آتا ہے ترے نام سے اے عشق اب تو؛
اب تو اے عشق ترے نام سے خوف آتا ہے
بھوک بچوں پہ جھپٹتی ہے درندوں کی طرح؛
تھک بھی جاتا ہوں تو آرام سے خوف آتا ہے
اول اول دل ِ نادان سے ڈر لگتا تھا؛
آخر آخر دل ِ ناکام سے خوف آتا ہے
خواہشیں چھین نہ لیں مجھ سے قمر میرے غرور
دل میں رکھے ہوئے اصنام سے خوف آتا ہے