قہقہے, خواب ,جنوں, رنگ ,ادا کیا کیا کچھ
وقت نے چھین لیا مجھ سے مرا کیا کیا کچھ
زندگی تُو نے عجب ڈھنگ سے برتا ہم کو
چند سانسیں ہمیں دِیں اور لیا کیا کیا کچھ
میرے پر ہوتے میں اُڑ کر ترے پاس آ جاتا
سوچتا رہتا ہوں خاموش پڑا کیا کیا کچھ
اک ذرا عرضِ تمنا کی سزا اتنی کڑی
ہم نے اک لفظ کہا اور سنا کیا کیا کچھ
تُو فقط دیکھ رہا ہے کہ دیا روشن ہے
یہ نہیں جانتا کرتی ہے ہوا کیا کیا کچھ