اِس لیے بھی خال و خد جھلسے ہوئے پائے گئے
ہم پرائی آگ میں جلتے ہوئے پائے گئے
دشت کو سرسبز دیکھا رات میں نے خواب میں
صبح کو دریا مرے سوکھے ہوئے پائے گئے
ہم وہاں پر بھی بکھیر آئے ہیں اپنی روشنی
جس جگہ جگنو کئی روتے ہوئے پائے گئے
بارہا ہاتھوں سے تیرے ٹوٹنے کے باوجود
جب بھی ہم تجھ سے ملے ہنستے ہوئے پائے گئے
موت سے آنکھیں ملا کر بات کرنے والے لوگ
زندگی کے سامنے سہمے ہوئے پائے گئے
صرف اتنا یاد ہے لپٹے تھے اک سائے سے ہم
دیکھتے ہی دیکھتے بکھرے ہوئے پائے گئے
ہم شجر وہ ہیں کہ جن پر بارشیں بے فائدہ
بھیگ کر بھی پیاس سے مرتے ہوئے پائے گئے