پروں میں پچھلی رُتوں کی تھکن اتر آئی
اڑان بھرنے کا سوچا تو آنکھ بھر آئی
کہ جیسے عمر کے خالی کھنڈر پہ شام اُترے
تری کمی مرے سینے میں ایسے در آئی
میں جانتا ہوں مرے ساتھ ساتھ چلتی گھٹن
تجھے ہنسی جو مرے سانس لینے پر آئی
وہ شخص باغ میں آیا تو اک عجب سی مہک
گلاب شاخ پہ کھلنے سے پیشتر آئی
تجھے وہ اطلس و کمخواب پر نہ آئی کبھی
جو نیند ہم سے فقیروں کو خاک پر آئی