میں مطمئن نہ ہوا تجھ کو غم سنا کے بھی
اندھیرا اور بڑھا ہے دیا جلا کے بھی
قبول کرتے ہوئے دل تڑپنے لگتا ہے
عجیب ہوتے ہیں کچھ فیصلے خدا کے بھی
وہ آسمان مری دسترس میں کیا آتا
ہزار کوششیں کیں ایڑیاں اٹھا کے بھی
تجھے گلے سے لگائیں تو جاں نکلتی ہے
اسیرِ جسم ہیں لیکن تری حیا کے بھی
مگر یہ کیا کہ پرندے شجر سے گر جائیں
اگرچہ ہوتے ہیں کچھ فائدے ہوا کے بھی
قفس کا قیمتی پنچھی ہوں سو خریدتے وقت
مجھے اڑا کے بھی دیکھا گیا گرا کے بھی
نہیں ہے دشت فقط پیاس کا حوالہ عدیل
میں رو پڑا ہوں سمندر کو آزما کے بھی