فرخ عدیل (غزل)

بحرِ حیرت میں جو غرقاب لیے پھرتی ہے

فرخ عدیل

بحرِ حیرت میں جو غرقاب لیے پھرتی ہے
جستجو کیا بے جو بے تاب لیے پھرتی ہے

وہی بوسیدہ لبادہ مجھے پہنائے گی
زندگی کون سے کمخواب لیے پھرتی ہے

سچ کہوں تو مرا اِس بھِیڑ میں دم گھُٹتا ہے
یوں تو دنیا ادب آداب لیے پھرتی ہے

دسترس میں اگر آ جائے تو جانے کیا ہو
جس کی حسرت مجھے شاداب لیے پھرتی ہے

دشتِ جاں پھر بھی نہ سیراب ہوا حیرت ہے
چشمِ گریہ مری سیلاب لیے پھرتی ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com