یوں تری راہ میں بیکار پڑے رہتے ہیں
جیسے روندے ہوئے اخبار پڑے رہتے ہیں
نیند آنکھوں سے کئی کوس پرے رہتی ہے
سامنے خوابوں کے انبار پڑے رہتے ہیں
ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تری چوکھٹ سے
ہم جو اُٹھے ہیں تو اغیار پڑے رہتے ہیں
جب بھی چلتی ہے ہوا زیست کے باغیچے میں
پھول اڑ جاتے ہیں اور خار پڑے رہتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو اُس پار کی خواہش میں عدیل
مدتوں جھیل کے اِس پار پڑے رہتے ہیں