نہ چاہتے ہوئے جاں سے گزرنا پڑتا ہے
کھِلے ہوؤں کو بہرطور جھڑنا پڑتا ہے
تقاضے خوب سمجھتا ہوں دنیاداری کے
سو اُس کو دیکھ کے رستہ بدلنا پڑتا ہے
بِنا دلیل تری بات لوگ سنتے ہیں
ہمیں تو سارے جہاں سے الجھنا پڑتا ہے
مسافتِ رہِ دنیا میں کیا تھکن کا جواز
کہ پاؤں ساتھ نہ دیں پھر بھی چلنا پڑتا ہے
کسی کو دھیان میں رکھنا ہے اپنی مجبوری
عجیب کارِ زیاں ہے جو کرنا پڑتا ہے