یہ اس کے شہر میں کیسا رواج دیکھا گیا
ہر ایک شخص کا اپنا مزاج دیکھا گیا
چلا ہے اس کی امیدوں پہ ظلم کا خنجر
غریب شہر کا یوں بھی علاج دیکھا گیا
ستم گرو تمہیں کشمیر سے نکالیں گے
ہر ایک سڑک پر بسے احتجاج دیکھا گیا
رقم جو کر گئے تاریخ خون سے اپنی
انہیں قلم نے دیا ہے خراج دیکھا گیا
فقیہہ شہر فقط تیری یہی شرارت ہے
وطن کا اپنے بگڑتا سماج دیکھا گیا
عجیب اس کے مراسم جہاں سے ہیں شمشاد
ہر ایک مزاج کا یوں امتزاج دیکھا گیا