قلم سے اپنے جو رخت سفر بناتا ہے
وہ مشکلات کو آسان تر بناتا ہے
وہ آبیاری گلستاں کی کر نہیں سکتا
جو خواہشات کے برگ و ثمر بناتا ہے
فقیہہ شہر بھی اب مصلحت کے پردے میں
جو راہزن کو بھی راہبر بناتا ہے
یہ ایک ادنی کرشمہ ہے یا علیؑ تیرا
تو کور چشموں کو اہل نظر بناتا ہے
تو ظلمتوں کا مداوا تو کر نہیں سکتا
پر اپنے ذہن میں شمس و قمر بناتا ہے
ادب کے رنگ میں شمشاد اپنے لفظوں سے
صدف کی کوکھ میں لعل و گوہر بناتا ہے