میں قلب و نظر میں وہ ضیا لے کے چلا ہوں
احساس کے ہونٹوں پہ صدا لے کے چلا ہوں
ممکن ہے قفس میں بھی قیامت کی گھٹن ہو
میں گلشن ہستی سے ہوا لے کے چلا ہوں
کوئی بھی نہ ٹھہرے گا میرے مد مقابل
ممتا کی مقدس جو دعا لے کے چلا ہوں
مرقدمیں فرشتے میری تعظیم کریں گے
محراب جبیں خاک شفا لے کے چلا ہوں
تاریخ میری کل کا مورخ بھی لکھے گا
میں وقت کی سولی پہ انا لے کے چلا ہوں
اب غیرت مسلم ہے یہاں سر سر بہ برہنہ
میں دختر حوا کی ردا لے کے چلا ہوں
اب گردش حالات کا کچھ خوف نہیں ہے
ہر گام پہ یوں نام خدا لے کے چلا ہوں
میں مر کے بھی پا جاؤں گا معراج محبت
یوں عشق کی منزل پہ وفا لے کے چلا ہوں
شمشاد میری فکر میں جدت کی جھلک ہے
اسلوب ادیبوں میں نیا لے کے چلا ہوں