حُسنِ نوائے شوق کی تعمیل کر چلے
سر کو اٹھائے عہد کی تکمیل کر چلے
خاکی بدن کو آتشِ دائم کی لو پہ رکھ
حدت برائے جان کی ترسیل کر چلے
دردوں بھری دریدہ ردائے حیات کو
تانے سے بانا جوڑ کے زنبیل کر چلے
نوری تجلیات کو پرواز و پر دیے
اپنے تخیلات کو جبریل کر چلے
بارش ہوئی تو خاک بدن کی مہک اٹھی
بادل تمھاری یاد کے برسیل کر چلے
اپنی انائے ہوش کا سودا نہیں کیا
پرجوش رہ کے خوف کی تذلیل کر چلے
کل شب ترے خیال کے پہلو میں بیٹھ کر
غم ہائے روزگار سے تعطیل کر چلے
اطہر لباسِ زیست پہن کر غلیظ جسم
سمجھے کے اپنی زندگی تبدیل کر چلے
میں نے صدائے حق کو کیا سر بلند اور
باقی تمام کام ابابیل کر چلے
دل کی جبیں کو آپ کی چوکھٹ پہ ٹیک کر
آنکھوں کو انتظار میں تحلیل کر چلے
گہری سیاہ رات میں خود کو جلا کے ہم
مثلِ مثال روشنی تمثیل کر چلے
اندر کی چپ کو کس نے عطا کردی دھڑکنیں
حسرت نئی زبان میں تفصیل کر چلے