پرانی سوچ گئی ضابطے نصاب گئے
بدن کی آگ سے جل روح کے نقاب گئے
خراب ہو کے رکھا پاس دور والے کا
خراب ہونے کو بھیجے گئے خراب گئے
شہودِ شہر نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے
معودِ شہدِ بلا نوش لینے ناب گئے
یہ سلسلہ تو ازل سے جہاں میں جاری ہے
حقیقتوں پہ پہنچنے سے مٹ سراب گئے
ہمارا ہونا صداقت ہے کوئی ہو کہ نہ ہو
خدا کو ساتھ لئے عالمِ غیاب گئے
ہماری آنکھ کے حلقوں کو ہلکا مت جانو
ہماری آنکھ لگی اور تمھارے خواب گئے
یہ میکدے کا نہیں واقعہ ہے مسجد کا
ہمارے جاتے ہی وہ عالئیِ جناب گئے