حسرت خان خٹک (غزل)
دھوکہ ترے وجود سے آگے نکل گیا
دھوکہ ترے وجود سے آگے نکل گیا
یعنی تو ہست و بود سے آگے نکل گیا
خوشبو کی طرح پھول سے میں پھیلتا رہا
اور اس طرح وجود سے آگے نکل گیا
منصور سی عطا ہوئی دیوانگی مجھے
میں سجدہ و سجود سے آگے نکل گیا
ہے ارتقائے فرد میں جرات کا یہ مقام
جو جم گیا جمود سے آگے نکل گیا
لا کے شعور سے مجھے لولاک مل گیا
اور میں تری حدود سے آگے نکل گیا
خاکستری کو خاک پر ایسا سکوں ملا
ہر نام ہر نمود سے آگے نکل گیا
مرے حروف اسم کی حالت میں آ گئے
لفظوں کے سب وفور سے آگے گزر گیا
اپنی خودی میں ڈوب کے مجھ کو خدا ملا
حسرت دوا درود سے آگے نکل گیا