کوئی نقاد آس پاس نہیں
شعر ہے شعر میں قیاس نہیں
حق و باطل بتانا لازم تھا
مسئلہ کربلا کا پیاس نہیں
رنگ فطرت کا جتنا عریاں ہے
اس قدر کوئی بے لباس نہیں
عشق ہے بے جنوں تو عشق نہیں
خاک جذبہ ہے جس میں آس نہیں
بندگانِ خدا سے ناواقف
کوئی بھی ہو خدا شناس نہیں
ایسی سرخی قبول سبزے کی
جس میں کوئل کوئی اداس نہیں
اک زمانہ ہے خان حسرت خان
خود زمانہ زماں شناس نہیں