نگاہ پر جو پڑ رہی تھی دھول سے نکل گئے
سمجھ رہے تھے سب غلط کہ بھول سے نکل گئے
یہ ماہتابِ شمس ہے یہ آفتابِ فکر و فن
حجابِ جاں رہا نہیں قبول سے نکل گئے
یہ عاشقی کے فلسفے یقین در یقیں گماں
پڑھا نہیں تھا ضابطہ سکول سے نکل گئے
جھکا نہیں سکا کوئی سوا خدا کے ناخدا
اصول پر ڈٹے رہے اصول سے نکل گئے
ملالِ جاں نہ تھا کبھی نہ ہے نہ ہو سکا کبھی
ملالِ دل کا شکریہ ملول سے نکل گئے
کیا تو عشق ہی کیا کبھی رکھا نہ فاصلہ
سو وصل سے وصال سے وصول سے نکل گئے
ببول بھی قبول ہیں قبول ہیں ببول بھی
مگر نہ جانے کیا ہوا وہ پھول سے نکل گئے
نہ حسرتِ طلب رہی نہ قلب میں خلِش کوئی
حسابِ جاں پہ ناز ہے حصول سے نکل گئے