تو ابھی تک بھی مجھے خود سے جدا جانتا ہے
میں کبھی سوچ نہیں سکتا خدا جانتا ہے
عشق کی فکر میں ہے فقر، طلب کوئی نہیں
جو دلَِ آنکھ سے دل تک کی دعا جانتا ہے
مجھ سے بیعت کا تقاضا نہ توقع رکھنا
میرا سر نیزے پہ سجنے کو جزا جانتا ہے
دوست ہے وہ تو سمجھ جائے گا حاجت تیری
دوست چہرے سے ترے من کی صدا جانتا ہے
جانتا ہے کہ مجھے عشق ہے صحراؤں سے
وہ محبت میں پہاڑوں کی انا جانتا ہے
اس کی میں شوخ بیانی کی مثالیں کیا دوں
جو ترے لب سے بھی الفاظ چرا جانتا ہے
اس سے بڑھ کر بھی بھلا اور وفا کیا ہوگی
مجھ سے بڑھ کر وہ ہر اک رسمِ وفا جانتا ہے
کس قدر دان کیا اس نے مجھے آبِ حیات
یہ تو میں جانتا یا میرا خدا جانتا ہے
زلف کھولے تو قیامت وہیں برپا کر دے
آنکھوں آنکھوں میں وہ طوفان اٹھا جانتا ہے
صبح کی پہلی اذانوں سے بھی پہلے اٹھ کر
روز اک راز وہ فطرت سے نیا جانتا ہے
رُخِ دوراں پہ پڑے پردے ہٹا دو یارو
جان جائیں گے جو کہتے ہیں کہ کیا جانتا ہے
وہ جو ہر وقت کہے جاتا ہے میں جانتا ہوں
وہ نہیں جانتا سورج کو دیا جانتا ہے
حسنِ پرنور، سخن ساز وہ آذاد منش
اس کا برتاؤ مگر شرم و حیا جانتا ہے
میں نہیں جانتا کچھ بھی میں یہی جانتا ہوں
اور کیا جاننا یہ جان کے کیا جانتا ہے
وہ نمو خیز بہاروں میں پلا سرخ گلاب
وہ مری آنکھ کی سرخی کو ہرا جانتا ہے
مرے مالک مرا دامن نہیں رکھنا خالی
مرا بیٹا مجھے ہر طور بھرا جانتا ہے
سلسلہ خوف و خوشامد کو نہیں مانتا وہ.
ورنہ حسرت بھی زمانے کی ادا جانتا ہے