میں کہاں ڈھونڈنے جاتا ہوں کتب خانوں میں
مجھ کو خود آ کے بلائیں مرے الفاظ کہ آ
میں ابھی سوچ کے صحرا میں کھڑا ہوتا ہوں
آ ہی جاتی ہے کسی سمت سے آواز کہ آ
پیر چلنے کے لیے جوں ہی قدم بھرتے ہیں
بجنے لگ جاتے ہیں خود سے کئی سُر ساز کہ آ
میں کہ ہر حد سے گزرنے کو ہوں تیار مگر
کون کہتا ہے مجھے کوئی بصد ناز کہ آ
ہائے وہ لمحہ کہ جب باپ بلائے بیٹا
آ ادھر آ مرے بیٹے مرے جاں باز کہ آ
یہ الگ بات کہ استاد نہیں ہے حسرت
شعر گوئی میں بلائیں سبھی استاذ کہ آ