چار سو پھیلے نظر آئے اجالے میرے
کوئی آ دیکھے پڑے پیر کے چھالے میرے
میں سمجھتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں لیکن
لوگ دیتے ہیں کئی بار حوالے میرے
آنکھ کے لمس سے جس جس کو چھوا چاند ہوئے
دن کے سورج ہوئے ہاتھوں سے اچھالے میرے
اچھے یاروں نے رکھے نام بھی اچھے میرے
بھایا کہہ دیتے ہیں یا کہتے ہیں لالے میرے
دشتِ وحشت میں ثمر بار نمو لے آئے
ذرہ ءِ ریت پہ برسے ہوئے پالے میرے
اتنی چاہت سے فقط ماں ہی کھلا سکتی ہے
دو نوالے تو چل آ ہاتھ سے کھالے میرے
وائے قسمت سے ملے تونے دیے زخم ہرے
نیلے نیلے سے ہوئے نیلے سے کالے میرے
نہ ہی جھکتا ہے نہ بکتا ہے نہ گھبراتا ہے
تونے سب عیب بہت خوب نکالے میرے
کوئی آئے مری تربت پہ تو مٹی کی جگہ
ان سے کہنا ہے کہ افکار سنبھالے میرے
نیا اسلوب نئی بات نئی تشبیہات
استعارے بھی بہت خوب نرالے میرے
چائے پینے کے لیے تونے چھوا ہے جب سے
جام کہتے ہیں ارے خود کو پیالے میرے
شعر کی شکل میں کھلتے گئے فلسوفِ جہاں
ٹوٹتے ٹوٹتے ٹوٹے کئی تالے میرے