آنکھوں سے بہت دُور ہے اور دل کے قریں بھی
وہ حُسنِ ازل پہلونشیں ہے بھی نہیں بھی
تھا خبط جنہیں عرش نشینی کا جہاں میں
عبرت کی ہے جا، وہ ہوئے پیوند زمیں بھی
دیکھو تو سہی عہد ریا کار کا منظر
ہنستا ہوا چہرہ ہے تو اک قلب حزیں بھی
بیگانہء سرمایہ و محنت ہوں جہاں میں
اب دل میں نہیں خود مجھے ہونے کا یقیں بھی
صدمات بہت جھیلے ہیں دنیا میں بشر نے
ناکافی تلافی کو ہے فردوس بریں بھی
کچھ کے لیے دنیا میں بہت عیشِ جہاں ہے
اور کچھ کو میسر نہیں اک نان جویں بھی
محتاج کو تو لقمہء عزت بھی دیا کر
رکھ نامہء اعمال میں یہ کار حسیں بھی
برباد ہوئے جن کے لیے راہِ وفا میں
اُلٹے ہوئے وہ ہم پہ بہت چیں بہ جبیں بھی
بس خواب کو تعبیر ملا کرتی ہے راہی
یہ بات اہم ہے اسے رکھ ذہن نشیں بھی