کسی کے عشق میں پائی ہیں وحشتیں کیا کیا
زمانے بھر سے ملی ہیں ملامتیں کیا کیا
گلے سے مل کے بھی دل سے منافقت نہ گئی
رکھی ہیں ہم نے بھی دل میں عداوتیں کیا کیا
نہ کچا صحن، نہ پیپل کا پیڑ اور جھولا
جدید عہد نے چھینی ہیں راحتیں کیا کیا
بچھا ہوا ہے مرے دل میں مائدہ غم کا
خدا کا شکر اُٹھاتا ہوں لذتیں کیا کیا
اب ایک شہر خموشاں ہے بے چراغ و دعا
نہ پوچھ دفن ہیں سینے میں حسرتیں کیا کیا
جو ہم مزاج نہیں ہم نشیں وہی ٹھہرے
میں ایک ہوں مرے سر ہیں مصیبتیں کیا کیا
وصال و ہجر و گل و عندلیب و صید فگن
خرد فروز ہیں یہ سب علامتیں کیا کیا
نہ احترام نہ لب پر دعا نہ دل میں وفا
بگاڑ دیں تری لوگوں نے عادتیں کیا کیا
میں جل کے آتشِ ہجراں میں ہو گیا کندن
مرے لیے ہیں ثمر بار خلوتیں کیا کیا
گل بہار ہے ساقی ہے مے بھی ہے راہی
اُٹھا رہی ہیں سر اپنا قیامتیں کیا کیا