اُن کی آنکھوں سے مے کشی کی ہے
حالت اب اپنی بے خودی کی ہے
اپنی قسمت میں رنج ہجر کہاں
ہم نے انساں سے عاشقی کی ہے
صبح ہنتے ہیں رات روتے ہیں
ہم نے یوں اپنی زندگی کی ہے
آشیاں بجلیوں کی زد میں ہے
کس نے گلشن کی مخبری کی ہے
کیا ڈرائے گا آسماں ہم کو
بحر غم میں شناوری کی ہے
کیا شکایت کریں کسی سے ہم
ہم سے دنیا نے بے رخی کی ہے
چپکے چپکے سے دل چرا لینا
یہ ادا خاص دلبری کی ہے
ہم کو آساں نہیں، بھلا دینا
خواب دیکھے ہیں شاعری کی ہے
ظلم زندہ ہے، عدل شرمندہ
تم نے کیسی یہ منصفی کی ہے
تم فقیروں کا حال کیا جانو
تم نے تو صرف صاحبی کی ہے
اب اندھیروں کا خوف کیا راہی
دل جلایا ہے روشنی کی ہے