یہ قلم جو ہے مرے ہاتھ میں، یہ نہیں ہے تخت و علم سے کم
یہ نہیں جلال عرب سے کم، یہ نہیں جمال عجم سے کم
غم دوستی، غم دشمنی، غم زندگی، غم جاں کنی
مجھے اتنے غم ہیں نصیب کیوں مری زندگی تو ہے کم سے کم
تجھے تخت و تاج ملا تو کیا، تو بنا ہوا ہے خدا تو کیا
مرا فقر شان وجود ہے جو نہیں ہے جاہ و حشم سے کم
مجھے میکدے کی نہیں طلب، مرے دل میں خواہش مے ہے کب
تری چشم مست کی خیر ہو یہ نہیں ہے ساغر جم سے کم
مرے پاس تیغ و سناں نہیں، میں قلم قبیلے کا فرد ہوں
یہ جو تیغ شاہی کی کاٹ ہے یہ سدا رہی ہے قلم سے کم
یہ جو زندگی کی ہیں تلخیاں، انھیں کس طرح میں کروں بیاں
جو وہ جامِ زہر پیا گیا وہ ہے آج شدت غم سے کم
مرے دل پہ لطف و کرم کرو، اسے قہر سے نہ بھسم کرو
مرا دل کہ مہبط نور ہے یہ نہیں ہے دیر و حرم سے کم
یہ کوئی ریاض جناں نہیں، یہ تو ایک مقتل عشق ہے
کوئی خوف کیا ہورقیب سے وہ ہے جاں نثاری میں ہم سے کم