زمیں کے چاک پہ کب سے پڑا ہوا ہوں میں
ستم تو یہ کہ کوئی دست کوزہ گر بھی نہیں
لوگوں کی لعن طعن سے کچھ نرم پڑ گیا
ورنہ وہ بد لحاظ ہے اپنی سرشت میں
ہم نہ مجنوں ہیں نہ فرہاد نہ وامق راہی
جانے کیوں اپنی طرف سنگ ملامت آئے
ہم ایسے لوگ تو گرد و غبار راہ ہوئے
خدا کرے تجھے منزل نصیب ہو جائے
عالمی گاؤں کنایہ ہے سنہری جال کا
الحذر! حربہ نیا ہے اب یہ استحصال کا
ورغلا کر لے گیا زاہد مجھے مسجد تلک
میں وہاں تھا پر مرا دل کوچہ جاناں میں تھا