ہو دل میں خوف تو پھر فتح یاب کیسے ہو
غنیم وقت کا روز حساب کیسے ہو
اصول عدل اگر ہوں سماج میں یکساں
کسی سے جرم کا پھر ارتکاب کیسے ہو
اگر عدالت و دستور ہی محافظ ہوں
امیر شہر کا پھر احتساب کیسے ہو
ہم اہل درد کہیں کیا فسانہء ہستی
کسی نے ہم سے نہ پوچھا جناب کیسے ہو
نہ احترامِ محبت، نہ خوف عقبی کا
مجھے بتاؤ تم اہلِ کتاب کیسے ہو
جو بزم عشق میں ساقی بھی ہو، سبو بھی ہو
گناہ گار سے پھر اجتناب کیسے ہو
لگا ہے ظلم کا دربار، سب ہیں مہر بہ لب
ہو خوف جاں تو سوال و جواب کیسے ہو
شعور حاضر و فردا و علم و آزادی
اگر ہوں یہ سبھی جزو نصاب، کیسے ہو
ہمیں تو فرصت آہ و فغاں نہیں راہی
تمہی کہو مرے عزت مآب کیسے ہو