کبھی مشکل کبھی وہ شخص آسانی بناتا ہے
جدھر ہو آگ کا دریا اُدھر پانی بناتا ہے
کوئی تو ہے جو آ کر روز ساحل کی ہتھیلی پر
ترے پاوں بنا کر اپنی پیشانی بناتا ہے
مصور طیش میں آ کر بڑے زرخیز رنگوں سے
زمیں کی گال پر حیرت سے حیرانی بناتا ہے
ہر اک دوجی غزل میں تذکرہ کر کے ترا جاناں
ترا بے کار خود اپنی پریشانی بناتا ہے
تری قربت میسر ہے مگر پھر بھی یہ دیوانہ
نئے کچھ زاویوں سے روز ویرانی بناتا ہے