ہوا ہے جب سے کسی کا ظہور آنکھوں میں
امڈ پڑا ہے مسلسل شعور آنکھوں میں
اِسی لیے تمہیں اندھا فقیر ملوایا
دکھائی دینے لگا تھا غرور آنکھوں میں
یہ جس حساب سے آنسو بہا رہا ہے سنو
چھپائے بیٹھا ہے دریا ضرور آنکھوں میں
زمانہ جس کو سمجھتا رہا فتورِ جہاں
چمک رہا تھا محبت کا نور آنکھوں میں
یہ مت سمجھ کہ سحر رفتگاں کو بھول گیا
بنی ہوئی ہیں ابھی تک قبور آنکھوں میں