فصیل چشم کو پہلے خودی نے چاٹ لیا
وجود بعد میں تیری کمی نے چاٹ لیا
میں کس طرح سے جوانی پہ کوئی بات کروں
مرا بڑھاپا مری کم سنی نے چاٹ لیا
اسی لیے تو ہمیشہ کھلی رہی آنکھیں
ہمارا سونا کسی بے کلی نے چاٹ لیا
جو مدتوں سے مسلط تھا میری ہستی پر
اجاڑ پن وہ تری اک ہنسی نے چاٹ لیا
اسی لیے تو بدن میں ہے کپکپی طاری
خوشی خوشی سے خوشی کو خوشی نے چاٹ لیا
میں جس وجہ سے تغزل میں رنگ بھرتا تھا
وہ حوصلہ بھی تو چارہ گری نے چاٹ لیا