کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے
آنکھ توآنکھ ہےبس ویسےہی بھر آئی ہے
تم تسلی سے مرے زخم کریدو وحشت
میں ہی ہوتا ہوں یہاں یا مری تنہائی ہے
ایک بھوکے نے اشاروں کی مدد سے طنزًا
کتنے لوگوں کو بتایا کہ مرا بھائی ہے
اب زمانے میں یہ زنجیر ہے پہچان مری
اُسکاممنون ہوں جس نےمجھے پہنائی ہے
ہم تومائل بہ کرم ہیں تبھی کچھ بولتے
عشق کے پاس کہاں قوتِ گویائی ہے
دونوں آنکھوں کو لگایا ہے الگ کاموں پر
اک تماشہ ہے یہاں ایک تماشائی ہے