اسد رضا سحر (غزل)

کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے

اسد رضا سحر

کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے
آنکھ توآنکھ ہےبس ویسےہی بھر آئی ہے

تم تسلی سے مرے زخم کریدو وحشت
میں ہی ہوتا ہوں یہاں یا مری تنہائی ہے

ایک بھوکے نے اشاروں کی مدد سے طنزًا
کتنے لوگوں کو بتایا کہ مرا بھائی ہے

اب زمانے میں یہ زنجیر ہے پہچان مری
اُسکاممنون ہوں جس نےمجھے پہنائی ہے

ہم تومائل بہ کرم ہیں تبھی کچھ بولتے
عشق کے پاس کہاں قوتِ گویائی ہے

دونوں آنکھوں کو لگایا ہے الگ کاموں پر
اک تماشہ ہے یہاں ایک تماشائی ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com