روپہلی دھوپ میں اک مور کا پر لگ رہی تھی
ہمیشہ کی طرح وہ کل بھی سندر لگ رہی تھی
اسے جب میٹرو کی سیڑھیوں سے جاتے دیکھا
تو مجھ کو بے بسی اپنا مقدر لگ رہی تھی
وہی میں ہوں، وہی بکھری ہوئی یہ زندگی ہے
وہ جب تک پاس تھی ہر چیز بہتر لگ رہی تھی
میں سنگِ رہگزر اڑنے لگا تھا آسماں میں
مجھے اک شخص کے پاؤں کی ٹھوکر لگ رہی تھی
پلٹنا چاہتے ہیں اس طلسماتی جہاں میں
جہاں اک بوند شبنم بھی سمندر لگ رہی تھی
ذکی اس کی رفاقت میں بہت سرشار تھا میں
مجھے دیوارِ سنگ و خشت بھی در لگ رہی تھی