طویل شب جو بسر کر رہا ہوں برسوں سے
میں انتظارِ سحر کر رہا ہوں برسوں سے
شدید خواہشِ زر تھی سو اس لیے بھی میں
یہ اپنے اشک گہر کر رہا ہوں برسوں سے
اے خوش جمال تغافل نہیں تحیر ہے
میں ایک زلف کو سر کر رہا ہوں برسوں سے
اُدھر جو پردہ نشیں ہیں کوئی بتائے انہیں
میں انتظار اِدھر کر رہا ہوں برسوں سے
مرے کریم! کوئی اور کام بھی مجھے دے
میں زندگی ہی بسر کر رہا ہوں برسوں سے
یہ زندگی ہے کہ ملبہ کسی مکان کا ہے
اسے اِدھر سے اُدھر کر رہا ہوں برسوں سے