بھٹک رہا ہوں مسلسل اگر نہیں ہوا تو
تمھاری سمت بھی مجھ سے سفر نہیں ہوا تو؟
غزل سنانے چلے ہو اسے ، سنا آؤ
گداز حرف کا اس پہ اثر نہیں ہوا، تو
چراغ ، ہجر، کتابیں، سکون، تنہائی
چلے ہو گھر کی طرف کوئی گھر نہیں ہوا تو
ابھی تو لذتِ گریہ کا لطف جاری ہے
اگر یہ عرصہِ غم مختصر نہیں ہوا تو
سلیم اپنا اثاثہ تو چند غزلیں ہیں
یہی کلام اگر معتبر نہیں ہوا تو