کیفیت غم کی آج کل نہیں ہے
شور سا ہے، اتھل پتھل نہیں ہے
ہجر کا توڑ ڈھونڈنا ہو گا
وصل اس مسئلے کا حل نہیں ہے
شور کرتا ہے تلملاتا ہے
دل سمندر ہے یار، تھل نہیں ہے
مستقل چھیڑ چھاڑ کرتی ہے
نظم لگتی ہے وہ غزل نہیں ہے
کیا کہا؟ عشق ترک کر دو گے؟
بات اچھی ہے، بر محل نہیں ہے
عمر کیسے گزار دی ترے بن!
عمر ہے یار ! ایک پل نہیں ہے
ہجر میں مسکرا رہا ہوں سلیم
میرے ماتھے پہ کوئی بل نہیں ہے