ترے بغیر کسی کام کا نہیں لگتا
ندی میں عکس اکیلا بھلا نہیں لگتا
مرے گریز پہ حیرت کیا نہ کر کہ مجھے
کبھی کبھی تو خدا بھی خدا نہیں لگتا
اے خوش جمال ترے اک زرا خرام کے بعد
ہمارے باغ میں پھل کیا سے کیا نہیں لگتا
تمہاری بات میں رس ہی نہیں رہا شاید
کہ مجھ کو ذائقہ اب ذائقہ نہیں لگتا
بس ایک راستہ اب رہ گیا ہے آنے کا
ہمارے گاوں کو جو راستہ نہیں لگتا
اسے خبر ہی نہیں اپنی ایک خامی کی
کہ جھوٹ اس کے لبوں پر بھلا نہیں لگتا
لگا ہوں ایسے کسی دلنشیں کے پہلو سے
کہ جیسے کوئ کنارے سے جا نہیں لگتا
میں اپنے آپ سے ملنے تو لگ گیا ہوں مگر
یہ رابطہ بھی مجھے دیرپا نہیں لگتا
میں کوہ قاف کی وادی میں آ گیا سید
یہاں کوئ بھی مجھے آپ سا نہیں لگتا