ہاو ہو سے نہ پزیرائی سے
بھر گیا اپنی ہی تنہائی سے
ایک تصویر ہی دیکھی تھی تری
ہاتھ دھونے پڑے بینائی سے
وار بھی مجھ کو نہیں کرنا پڑا
جان بھی بچ گئ پسپائی سے
ورنہ تو کون مجھے جانتا تھا
نیک نامی ہوئ رسوائی سے
یوں تو وسعت ہے سمندر جیسی
ہوں پریشان بھی یکجائی سے
سطح پہ اپنی نہ آ جاو کہیں
میرے الفاظ کی گہرائی سے
کتنا گمنام ہوا ہوں سید
سارے عالم کی شناسائی سے